ایک عام کینڈین مسلمان نے آزادی اظہار کا پول کھول دیا ،مغربی حکومتوں کو شرمندہ کر دیا
ٹورنٹو (نیوز ڈیسک) مغرب نے اسلام اور پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کو وطیرہ بنا لیا ہے اور جب مسلمان اس پر احتجاج کرتے ہیں تو ہمیشہ یہ جواب دیا جاتا ہے کہ یہ آزادی اظہار ہے اور یہی موقف اپنا کر ایک دفعہ پھر گستاخانہ خاکوں پر مبنی میگزین ”شارلی ایبو“ کی تقریباً ایک کروڑ کاپیاں چھاپی جا رہی ہیں۔
کینیڈا کے ایک مسلمان نے مغرب کی ڈھٹائی اور منافقت کا بھانڈا پھوڑنے کیلئے نہایت سادہ طریقہ اختیار کیا اور پھر وہی ہوا جو مسلمان ہمیشہ سے کہتے آ رہے ہیں کہ اسلام کی توہین تو آزادی اظہار ہے لیکن جب یہودیوں کے ہولو کاسٹ (ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کی تباہی اور ہلاکت) کا انکار کیا جائے یا مغرب کے ناپسندیدہ موضوعات پر بات کی جائے تو یہ جرم ہے۔
جیری ریڈک کینیڈا سے تعلق رکھنے والے مسلمان ہیں اور ہاٹ ڈاگ برگر بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا ”آئیے دیکھتے ہیں کہ جب آزادی اظہار کو مسلمانوں کی توہین کے علاوہ کسی بات کیلئے استعمال کیا جائے تو اس کی کتنی آزادی ہے“۔ اس کے بعد انہوں نے مندرجہ ذیل ٹویٹس بھیجیں۔
1۔ کہتے ہیں کہ سب سے اچھے بھنے ہوئے یہودی پولینڈ اور جرمنی میں ملتے ہیں کیونکہ وہاں مٹی کے تندور استعمال کئے جاتے ہیں“۔
2۔ ” میں 2001ءمیں سمجھا کہ امریکی اڑ سکتے ہیں، ویسے وہ نیویارک کے ورلڈٹریڈ سنٹر سے چھلانگیں لگا رہے تھے“۔
3۔ ”ہٹلر نے اپنے لوگوں سے پوچھا کہ وہ یہودیوں کو کیسے کھانا پسند کرتے ہیں۔ ان کا جواب تھا کہ اچھی طرح پکے ہوئے اور گول بریڈ اور یہودی روایات کے مطابق بنائے گئے اچار کے ساتھ“۔
4۔ ”اگر میں ہٹلر کا کارٹون بناﺅں کہ وہ ”یہودیوں کو تندور میں پھینک رہا ہے تو کیا یہ بھی اسلام کی گستاخی والے خاکوں کی طرح قابل قبول ہو گا؟“
مغربی میڈیا میں ہی شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق ان ٹویٹس کے منظرعام پر آتے ہی قانون حرکت میں آ گیا اور نہ صرف جیری ریڈک کا ٹوئٹر اکاﺅنٹ بند کر دیا گیا بلکہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ واضح رہے کہ عین اس وقت مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بدترین توہین آمیز باتیں جاری ہیں اور یورپ کے درجنوں میگزین گستاخانہ خاکے شائع کر رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment